ربِ کائنات
" ربِ کائنات "
کامل ہے جو ازل سے ، وہ ہے کمال تیرا
باقی ہے جو ابد تک ، وہ ہے جلال تیرا
ٰہے عارفوں کو حیرت اور منکروں کو سکتہ
ہر دل پہ چھا رہا ہے ، رعب جلال تیرا
گو حکم تیرے لاکھوں یاں ٹالتے رہے ہیں
لیکن ٹلا نہ ہر گز ، دل سے خیال تیرا
پھندے سے تیرے کیوں کر ، جائے نکل کے کوئی
پھیلا ہوا ہے ہر سُو ، عالم میں جال تیرا
اُن کی نظر میں شوکت ، جچتی نہیں کسی کی
آنکھوں میں بس رہا ہے جن کی جلال تیرا
دل ہو کہ جان ، تجھ سے کیوں کر عزیز رکھیے
دل ہے سو چیز تیری ، جاں ہے سو مال تیرا
بیگانگی میں حالی ، یہ رنگ آشنائی
سن سن کے سر دُھنیں گے ، قال اہل حال تیرا
NICE
ReplyDelete