وقف درد جاں ہوا محو غم دنیا ہوا
اب تو اپنے جسم کا سایہ بھی بیگانہ ہوا
میں تو تیری محفل میں آکراور بھی تنہا ہوا
وقف درد جاں ہوا محو غم دنیا ہوا
دل عجب شے ہے کبھی قطرہ کبھی دریا ہوا
تیری آہٹ کے تعاقب میں ہوں صدیوں سے رواں
راستوں کے پیچ وخم میں ٹھوکریں کھاتا ہوا
لذت دیدار کی اے ساعت رخشاں ٹھہر
پڑھ رہا ہوں میں تیرے چہرے پہ کچھ لکھا ہوا
اب تو تیرے حُسن کی ہر انجمن میں دھوم ہے
جس نے میرا حال دیکھا تیرا دیوانہ ہوا
وہ سمے رخصت ہوے ہمدم وہ شامیں کھو گئیں
کن خیالوں کے جھمیلوں میں ہے تو اُلجھا ہوا
No comments:
Post a Comment